الائی سستکتے انسا نوں کا قید خانہ

”وادی الائی سسکتے ہوئے انسانوں کا قید خانہ “

وادی الائی میرا آبائی علاقہ ہے ۔ یہ وادی جتنی خوبصورت ہے اس سے کئی گنا زیادہ پسماندہ بھی ہے ۔ یہاں کے لوگ آج بھی باقی دنیا سے پچاس ساٹھ سال پیچھے ہیں ۔

یہاں خان ازم اور وڈیرہ شاہی کا دور دورہ ہے ۔ انتظامیہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ آج کے چیئر لفٹ کا واقعہ یہاں کے عوام کی بے بسی اور بے چارگی کی صرف ایک جھلک ہے ورنہ یہاں گھر گھر پسماندگی اور محرومیت کی داستانیں بکھری پڑی ہیں ۔ اللّٰہ کرے کہ لفٹ میں پھنسے ہمارے بھائی اور بچے بچ جائیں لیکن اس واقعہ نے یہاں کا سارا سیاسی اور انتظامی نظام ننگا کر دیا ہے ۔

یہاں جس بندے نے بھی سر اٹھانا چاہا اسے کچل دیا گیا ۔ جس کسی نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی وہ آواز ہی دبا دی گئی ۔ جس نے بھی اپنے حق کا مطالبہ کیا اس کا گلہ ہی گھونٹ دیا گیا ۔ جس نے بھی اڑان بھرنے کی کوشش کی اس کے پر ہی کاٹ دیے گئے ۔

یہ وادی نہیں بلکہ سسکتے انسانوں کا ایک قید خانہ ہے ۔ خان یہاں کا مالک ہے اور انتظامیہ ان کے اشاروں پہ چلنے والا داروغہ ۔

یہاں ایشیا کی وسیع و عریض اور خوبصورت ترین چراگاہ وادی چوڑ بھی ہے جہاں ہر سال خانہ بدوش لاکھوں کی تعداد میں جانوروں کے ریوڑ لے کر آتے ہیں ۔ اس چراگاہ میں جانوروں کو تو دانہ پانی ملتا ہے لیکن عام انسان اس کا سوچ بھی نہیں سکتا ؛ کیونکہ اس چراگاہ کے رزق پر بھی خان کا قبضہ ہے ۔

لاکھوں کی آبادی پر مشتمل اس وادی میں صحت ، تعلیم ، ٹرانسپورٹ اور زندگی کی دیگر بنیادی ضروریات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔

یہاں کے پانی پر ایک خوبصورت ڈیم تعمیر کیا گیا ہے لیکن یہاں کے لوگ ہفتوں اور مہینوں تک بجلی کو ترستے رہتے ہیں ۔آج والا واقعہ بھی تاخیر کے ساتھ اس لئے ہائی لائٹ ہوا کہ یہاں رات آٹھ بجے سگنلز جاتے ہیں اور صبح نو بجے آتے ہیں ۔

تعلیم کے میدان میں جو بندہ بڑے اداروں میں زیادہ نمبر حاصل نہ کر سکے تو وہ نقل کے ذریعے اعلیٰ نمبرات حاصل کرنے کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔

الائی کو باقی دنیا سے ملانے والی سڑک اتنی خستہ حال اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کہ اس پہ سفر کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے اور یہاں کے لوگ روزانہ یہ موت کا پل عبور کرتے ہیں ۔

صحت کی سہولیات اتنی دگرگوں ہیں کہ خدا نخواستہ عورت کو ڈیلیوری کے دوران بڑے آپریشن کی ضرورت پڑ جائے تو اسے دو تین گھنٹوں کا سفر کر کے بٹگرام لانا پڑتا ہے ۔

یہاں پر سیاحت کے لئے بڑے خوبصورت پوائنٹس ہیں ۔ گلئی میدان اور فیری لیک تو قدرت کا عجیب ہی شاہکار ہیں ۔ لیکن سیاحت کے رستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں تاکہ باہر کی دنیا یہاں کے سیاہ نظام سے بے خبر رہے ۔

یہ وادی مزید بھی کئی دہائیاں تاریکی میں ڈوبی رہتی لیکن آج کی آزمائش نے اسے پوری دنیا کے سامنے نمایاں کر دیا ہے ۔

الائی سے تعلق رکھنے والے تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ آج قدرت نے اگر سر اٹھانے کا موقع پیدا ہی کر دیا ہے تو خدارا اسے ضائع نہ ہونے دیں اور اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائیں ۔ اپنے مسائل دنیا کے سامنے رکھیں ۔ اس وقت پوری دنیا کی نظریں آپ کی طرف اٹھی ہوئی ہیں اور قوموں کی زندگی میں یہ لمحات کبھی کبھار ہی آیا کرتے ہیں ۔

تحریر عبدالباسط ہزاروی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں