غزل

پردہ آنکھوں سے ہٹانے میں بہت دیر لگی
ہمیں دنیا نظر آنے میں بہت دیر لگی

نظر آتا ہے جو ویسا نہیں ہوتا کوئی شخص
خود کو یہ بات بتانے میں بہت دیر لگی

ایک دیوار اٹھائی تھی بڑی عجلت میں
وہی دیوار گرانے میں بہت دیر لگی

آگ ہی آگ تھی اور لوگ بہت چاروں طرف
اپنا تو دھیان ہی آنے میں بہت دیر لگی

جس طرح ہم کبھی ہونا ہی نہیں چاہتے تھے
خود کو پھر ویسا بنانے میں بہت دیر لگی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں